علامہ عبدالستار عاصم
کشف و روحانیت اور شریعت و ولایت کے
حوالہ سے آستانہ عالیہ شیر ربانی شرقپور شریف کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ
برصغیر پاک و ہند میں ایک ایسا روحانی مرکز تجلیات اور گم کردہ راہ انسانوں
کی ایک ایسی منزل جاوداں ہے جو نہ صرف ماضی میں لاکھوں انسانوں کی زندگی
میں مثبت شرعی و روحانی انقلاب برپا کر چکا ہے بلکہ اس چشمہ فیض کی روانی
سے تاقیامت انسانیت کو حیات جاودانی اور سوز لاثانی مہیا ہوتا رہے گا۔ راقم
ایک مصنف، صحافی ہونے کی حیثیت سے آج سے تیس سال پہلے اس درگاہ شیر ربانی
میں داخل ہوا اور جب چند گھنٹوں کی تقریب ملاقات کے بعد واپس پلٹا تو دل
روحانیت سے معمور اور جسم مثل کوہ طور ہو چکا تھا۔ اس انقلاب کا باعث اس
درگاہ کے سجادہ نشین فخرالمشائخ صاحبزادہ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوریؒ کی
پراثر تبلیغ اور پرسوز گفتگو تھی اور ساتھ ہی ان کے صاحبزادہ حضرت میاں
خلیل احمد شرقپوریؒ کی روحانیت سے لبریز نگاہ التفات اور خیر و فلاح پر
مبنی سچی ہدایات تھیں۔ اس دن سے آج تک راقم اس درگاہ سے ایسے پیوستہ ہے
جیسے پھول کے ساتھ خوشبو، سورج کے ساتھ روشنی اور ابر کے ساتھ بارش منسلک
ہوتی ہے۔ ویسے تو اس شیر ربانی خانوادہ کا ہر فرد ملک اور اسلام کے مقدر کا
ستار ہے لیکن فخر المشائخ صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری کی شان ہی
نرالی ہے۔ گزشتہ روز وہ اپنے لاکھوں معتقدین کو داغ مفارقت دے کر جنت مکین
ہو گئے اس حوالہ سے ان کے متعلق چند سطور پر مبنی ایک معلوماتی مضمون رقم
کر رہا ہوں اس سے قارئین کو اس بطل جلیل صاحبزادہ میاں جمیل احمد
شرقپوریؒ
سے متعلق بیش بہا معلومات مل سکیں گی۔
حضرت فخرالمشائخ میاں جمیل
احمد شرقپوریؒ 3 فروری 1933ء بمطابق 27 شوال 1351ھ جمعرات کے روز بوقت صبح
حضرت قبلہ میاں ثانی لاثانیؒ کے ہاں شرقپور شریف میں پیدا ہوئے تھے۔ جب آپ
کی پیدائش ہوئی تو قبلہ حضرت ثانی لاثانیؒ مسجد میں فجر کی نماز ادا کرنے
میں مشغول تھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد جب آپ اپنے گھر تشریف لائے تو آپ کے
تولد ہونے کی خوشخبری سنتے ہی آپ کا چہرہ مبارک مسرت و انبساط سے کھل اٹھا
اور نومولود کو دیکھتے ہی کہا کہ یہ بچہ تو جمیل (خوبصورت) ہے تو آپ نے
فرمایا جمیل تو صرف احمدؐ کی ذات ہے تو ہم اس طرح کرتے ہیں جمیل اور احمد
کو ملا کر جمیل احمد رکھ دیتے ہیں۔ سو حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد واقعی
اسم بامسمیٰ (مظہر جمال احمد) تھے۔ آپ کے والد مکرم میاں غلام اللہ المعروف
ثانی لاثانیؒ ہیں اور میاں عزیزالدین صاحب آپ کے دادا جان تھے۔
حضرت
صاحبزادہ میاں جمیل احمدؒ نے اپنی تعلیم کی شروعات قرآن پاک سے کی اور آپ
نے تھوڑے ہی وقت میں سات سال کی عمر میں مولانا محمد علی صاحب سے قرآن مجید
ناظرہ کی تعلیم مکمل کر لی بعدازاں آپ نے علوم اسلامیہ کی تعلیم کا آغاز
اپنے والد محترم میاں ثانی لاثانیؒ سے فارسی کی مشہور معروف کتب ’’گلستان‘‘
اور ’’بوستان‘‘ پڑھیں اور اسلامی علوم کی تحصیل سے فراغت کے بعد آپ نے
مذہبی کتب (فارسی، عربی، اردو) کا سیر حاصل مطالعہ کا شغل اپنایا۔ اسی
مطالعہ کے ذوق و شوق کے نتیجے میں ہی آپ تصانیف کے میدان میں داخل ہوئے اور
آپ نے متعدد کتب تصنیف کیں۔ قرآن کریم ناظرہ کی تکمیل کے بعد آپ نے اپنے
والد مکرم حضرت میاں ثانی لاثانیؒ سے علوم اسلامیہ کی تعلیم کا آغاز کیا
اور ساتھ ہی پرائمری سکول شرقپور میں 1940ء میں سات سال کی عمر میں داخلہ
لے لیا۔
اس دور میں سکولوں میں ہندو اور مسلمان مشترکہ طور پر پڑھتے
تھے مگر اس پرائمری سکول کی یہ خصوصیت سمجھ لیں کہ یہاں پر صرف اور صرف
مسلمان اساتذہ کی ہی تقرری کی جاتی تھی گویا حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد
صاحب اس بات پر فخر کر سکتے ہیں انہیں جملہ اساتذہ مسلمان ملے۔ ان کے سکول
کے ہیڈ ماسٹر محمد احمد خان تھے جو کہ باریش اور باشرع اور ہمیشہ صوم و
صلوٰۃ کی پابندی کرتے تھے۔
حضرت میاں جمیل احمد صاحب دامت برکاتہ
شروع ہی سے عام بچوں سے یکسر مختلف تھے اور ان کو کبھی کسی ہم عمر کے ساتھ
کوئی کھیل کھیلتے نہ دیکھا گیا اور نہ آپ کبھی دوسرے بچوں کی طرح گلی کوچوں
میں ادھر ادھر پھرایا گھومایا کرتے تھے۔ جب سکول سے چھٹی ہوتی تو آپ سیدھے
گھر تشریف لے آتے اور اپنی تعلیم کی تکمیل میں مشغول ہو جاتے۔ آپ نے
پرائمری کا امتحان 1944ء میں پرائمری سکول شرقپور شریف سے پاس کیا اور
بعدازاں آپ گورنمنٹ ہائی سکول شرقپور شریف میں داخل ہو گئے۔
حضرت
صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری گویا ازل سے ہی منفرد طبیعت لے کر آئے تھے
اور دوسرے لڑکوں کی طرح آپ نہ تو کبھی بچوں سے لڑتے جھگڑتے اور نہ ہی ان
سے شرارتیں کرتے غرض یہ کہ ہر غلط عادت سے انہیں نفرت تھی۔ آپ اپنے اساتذہ
کو نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی فرمانبرداری کو اپنا نصب
العین بنا رکھا تھا۔ جب تک آپ نے تعلیم حاصل کی۔ اساتذہ کو کبھی آپ نے کسی
قسم کی شکایت کا موقع نہ دیا۔ میٹرک کر لینے کے بعد آپ نے طب کی کتابیں آغا
دوست محمد تکمیلی سے پڑھیں اور علم طب میں اچھی خاصی مہارت حاصل کی۔ بعد
میں آپ نے اپنی خاندانی روایات برقرار رکھنے کے لئے طبیہ کالج لاہور میں
داخلہ لے لیا اور علم طب میں آپ نے ڈگری حاصل کی۔ گویا آپ طب میں مہارت
نامہ رکھتے تھے۔ حضرت میاں صاحبزادہ صاحب نے یوں تو بہت سے اساتذہ سے علوم و
فنون میں مہارت کی تکمیل فرمائی لیکن آپ کے کچھ اہم اساتذہ یہ ہیں۔
-1 حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ صاحبؒ
-2 شیخ محمد عثمان صاحب قصوری
-3 سید اقبال احمد شاہ صاحب
-4 مولوی محمد حسن صاحب
-5 محمد احمد خان
یہ تمام اساتذہ نابغہ روزگار تھے اور علوم فنون میں ثانی لاثانی تھے۔
حضرت
فخرالمشائخ صاحبزادہ میاں جمیل احمد نہ صرف تصنیف و تالیف سے بڑا شغف
رکھتے بلکہ تصنیف و تالیف کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف تھے اور یہی وجہ ہے
کہ آپ علماء اور فضلا سے بڑے ادب اور احترام سے ملتے۔ آپ ہمیشہ عوام و خواص
کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے کوشاں نظر آتے۔ اس سلسلے میں آپ
نے نہ صرف متعدد کتابیں تصنیف و تالیف فرمائیں بلکہ بہت سی دینی مذہبی
کتابیں چھاپ کر لوگوں میں مفت تقسیم بھی فرمائیں۔
درج ذیل آپؒ کی مشہور تصانیف ہیں:
-1 مسائل نماز
-2 تذکرہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ
-3 ارشادات مجدد الف ثانیؒ
-4 عربی گرائمر
-5 تذکرہ مشائخ نقشبند (دو جلد)
-6 تذکرہ شیر ربانیؒ
-7 تذکرہ مجدد الف ثانی (تین جلد)
قبلہ
میاں جمیل احمدؒ چونکہ خود صاحب علم تھے لہٰذا علم اور علماء کو انتہائی
قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے مقامات علمی سے بھی بخوبی آشنا تھے۔
آپ کے علماء کرام سے گہرے تعلقات اس بات کی بھرپور غمازی کرتے ہیں کہ آپ
علم اور علماء سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔
آپ کی طبیعت میں
نرمی اور حلیمی گویا کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی اور طرہ اس پر یہ کہ آپ کا
کوئی مہمان بھی سنت نبویؐ کے مطابق اپنی خاطر تواضع ہوئے بغیر آپ کے آستانہ
عالیہ سے ہرگز خالی نہیں جا سکتا تھا۔ آپ کی ذات انسانی آلائشوں مثلاً
تکبر غرور سے بالکل ماورا تھی اور ہر قسم کے تفاخر سے آپؒ سخت نفرت کرتے
تھے۔ عاجزی اور انکساری گویا آپؒ نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ آپ
ہمیشہ اپنے حلقہ ارادت میں حسن اخلاق کا ہی درس دیتے نظر آئے۔ ہر ایک سے
نہایت شفقت سے پیش آتے۔ مفلسوں کی اعانت کرتے‘ کوئی غلطی کرتا اس پر مواخذہ
بالکل نہ کرتے۔ بیکسوں کا سہارا بننے پر فخر محسوس کرتے اور بیماروں کی
عیادت کو بڑی سعادت گردانتے تھے۔ یہ تمام خوبیاں اور اوصاف آپ کی گھٹی میں
شامل تھیں۔
حضرت صاحبزادہ فخر المشائخ میاں جمیل احمدؒ عاجزی و
انکساری کا ایک حسین مرقع تھے۔ آپ کسی کے منہ سے اپنی تعریف سننا ہرگز
گوارا نہیں کرتے تھے اور اگر آپ کا کوئی مرید یا عقیدت مند ایسا کرنے کی
کوشش کرتا تو آپ اسے نہ صرف روک دیتے تھے بلکہ اس پر سخت تنبیہ کرتے ہوئے
ناراضگی کا بھی اظہار فرماتے تھے۔
ایک روز اپنے حلقہ مریدین میں
تشریف فرما تھے کہ مرشد کامل کے سلسلے میں بات ہونے لگی۔ تو آپ اپنے مخصوص
انداز میں فرمانے لگے۔ ’’ہم کوئی مرشد کامل تھوڑے ہیں‘ بس ہمیں تو اپنے
مرشد کی طرف سے جو ڈیوٹی ملی ہے‘ ہم اسے ایک خادم کی حیثیت سے نبھا رہے ہیں
اور آنے والے عقیدت مندوں کو دال چپاتی کھلا چھوڑتے ہیں۔ مرشد کامل تو وہی
ہوتا ہے جو کوئی اس کے پاس حلقہ ارادت میں شامل ہونے آئے اور وہ صرف اپنی
ایک باطنی نظر سے اس کے سینے سے تمام کدورت‘ حسد اور گناہ کرنے کی خواہش تک
کو نکال باہر کر دے اور پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اللہ تعالیٰ
تک رسائی بخش دے۔‘‘
حضرت صاحبزادہ فخر المشائخ میاں جمیل احمدؒ حسن و
جمال میں اسم بامسمی تھے اور آپ کا جمال ہر خاص و عام کو دعوت نظارگی دیتا
تھا۔ آپؒ درمیانی قد کے حامل تھے‘ چہرہ مبارک پر رونق اور بڑی بڑی آنکھیں
بلا کی سحر انگیزی رکھتی تھیں۔ آپ کی ان پر فسوں آنکھوں کی جس پر بھی نگاہ
پڑتی وہ آپ کا والہ وشیدا ہوئے بغیر ہرگز نہیں رہ سکتا تھا۔ پیشانی کشادہ
تھی‘ بینی مبارک بارعب اور اونچی تھی۔ گفتگو کرنے میں بڑی نرمی استعمال
کرتے تھے لیکن کبھی کبھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا و رغبت کی خاطر جلالت
سے بھی کام لے لیتے۔ تاہم اکثر آپ کی طبیعت پر جلال کی بجائے جمال ہی غالب
رہتا تھا۔ اپنے لخت جگر فخر شیر ربانیؒ حضرت میاں خلیل احمد شرقپوریؒ کے
وصال کے بعد ان کے داغ مفارقت کی وجہ سے آپ فخر المشائخؒ کی طبیعت مبارک
بہت ناساز ہو گئی تھی اور آپ مریدین کے سہارے اٹھتے بیٹھتے تھے یہاں تک کہ
گذشتہ روز اس فانی دنیا سے کنارہ کش ہو گئے۔
فخر المشائخؒ نہ صرف ایک
سچے اور پکے عاشق رسولؐ تھا بلکہ فنا فی الرسولؐ تھے۔ آپ کا اٹھنا بیٹھنا‘
بولنا چلنا‘ سونا جاگنا‘ کھانا پینا اور لباس وغیرہ الغرض یہ کہ اوڑھنا
بچھونا تک سنت رسولؐ کے عین مطابق تھا سر پر عمامہ اور ٹوپی‘ جبہ مبارک اور
پاجامہ المختصر ہر چیز سنت نبویؐ کی غمازی کرتی ہوئی نظر آتی۔
آپؒ
کی مذہبی اور ملی خدمات کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور
ہے۔ تاہم ذیل میں چند سطریں تبرک و تیمن کے طور لکھی جاتی ہیں۔
حضرت
قبلہ و کعبہ شیر ربانی قطب حقانیؒ نے سب سے پہلے شرقپور شریف میں ’’تحریک
احیاء سنت‘‘ کے نام سے ایک مذہبی و ملی تنظیم کی بنیاد رکھی اور آپ کے
خلیفہ اول آپؒ کے برادر اصغر حضرت میاں غلام اللہ المعروف ثانی لاثانی
شرقپوریؒ نے اس تحریک کو عملی طور پر فعال بنانے کے لئے 1944ء میں ’’جامعہ
میاں صاحب‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بنایا۔
دارالمبلغین حضرت میاں صاحبؒ میں جو مستند اور جید علماء کرام درس و تدریس کا مقدس کام سرانجام دینے میں مصروف و مشغول ہیں۔
فخر
المشائخ حضرت صاحبزادہ صاحبؒ نہ صرف قلم و قرطاس کی افادیت و اہمیت سے
آشنا تھے۔ بلکہ آپ یہ بھی جانتے تھے کہ اسی مادیت کے جمودی دور میں اک یہی
موثر اور فعال ذریعہ ہے کہ جس کے طفیل لوگوں کو علم و عرفان کی آگاہی دی جا
سکتی ہے۔ معیاری تبلیغ کے لئے معیاری رسائل اور معیاری تصنیفات و تالیفات
رقم کی جا سکتی ہیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر شرقپور شریف کی سرزمین میں آپ نے
1955ء میں ماہنامہ ’’نور اسلام‘‘ ایک مجلہ اسلام جاری کیا اور یہ رسالہ
اپنے معیاری مضامین اور نقدی مقالات کی بناء پر زمانے کے بے شمار اتار
چڑھاؤ دیکھنے کے باوجود زندہ پائندہ اور جاری و ساری ہے۔ اس رسالے میں درس
قرآن، درس حدیث، فقہی مسائل، بزرگان دین کے حالات اور شیر ربانیؒ کے افکار و
ملفوظات کے علاوہ اخلاقی و تربیتی اور نصابی مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔
فخرالمشائخؒ کی زیر ادارت اس رسالے کے اب تک کئی ضخیم نمبر بھی نکل چکے
ہیں۔ جن میں چند معروف و مشہور یہ ہیں۔
(1) شیر ربانی نمبر (2) امام
اعظم نمبر (3) اولیائے نقشبند نمبر (4) مجدد الف ثانی نمبر (3 جلدیں) حضرت
صاحبزادہ صاحبؒ نے اس رسالے کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بالکل نہیں بنایا بلکہ
آپؒ نے اسے دین کی اشاعت و تبلیغ کا ذریعہ گردانا اور اس کار خیر میں آپؒ
کو بڑی کامیابی و کامرانی ہوئی۔ علاوہ ازیں آپؒ کی سرپرستی میں پندرہ روزہ
’’آواز نقشبند‘‘ اور ہفت روزہ ’’اخبار مجدد الف ثانی‘‘ بھی شائع ہوتے رہے
جوکہ اب ان کی وفات کے بعد بھی انشاء اللہ جاری و ساری رہیں گے۔ جن میں دین
کے مسائل اور تصوف کے نکات بڑے مفصل اور موثر پیرائے میں بیان کئے جاتے
ہیں۔
فخرالمشائخ حضرت صاحبزادہ صاحبؒ نے اس دورِ ناہنجار میں قلم و
قرطاس کے مؤثر ذریعے کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر ہی شرقپور شریف میں
اشاعت و فروغ دین کے لئے تصنیفی اور تالیفی ضرورتوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے
ہوئے ایک اشاعتی ادارہ ’’مکتبہ نور اسلام‘‘ کے نام پر قائم کیا۔ اور اس
ادارے کے تحت آپ نے کئی مفید اور پر تاثیر کتابیں چھاپ کر لوگوں میں مفت
تقسیم کیں۔ ان کتابوں کے نام یہ ہیں۔
(1) تائید اہلسنت (2) عربی
گرائمر (3) خزینۂ معرفت (4) ارشادات مجدد (5) مسلک مجدد (6) تذکرۂ
اولیائے نقشبند (7) منبعِٔ انوار (8) تذکرۂ مجدد الف ثانی نمبر تین جلدیں
(9) تذکرۂ حضرت میاں غلام اللہ صاحبؒ
دین اسلام میں تبلیغ و اشاعت
کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے اور علماء کرام کا اہم فریضہ بھی ہے۔
اور انہی دینی فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے ہی علمائے دین کو حضور نبی کریمؐ
نے العلماء ورثۃ الانبیاء کے درجہ سے سرفراز فرمایا ہے۔
حضرت قبلہ
فخر المشائخؒ چونکہ ایک عالم دین تھے اور پوری دنیا آپ کو ایک بہترین مبلغ
اسلام سے نام سے جانتی ہے اور پہچانتی ہے، آپ بے شمار دینی و مذہبی
اجتماعات میں اپنے آپ کو بین الاقوامی حیثیت کے مبلغ بھی منوا چکے تھے۔ نہ
صرف پنجاب اور پاکستان بلکہ ترکی، عراق، لندن، مدینہ طیبہ اور دوسرے ممالک
میں آپؒ کے پرتاثیر خطابات کی نہ صرف ڈھاک بیٹھ چکی تھی۔ بلکہ کئی ممالک
میں آپؒ کی تعلیمات و ملفوظات سے متاثر ہو کر کئی لوگ مشرف بہ اسلام بھی ہو
چکے ہیں اور کئی قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کا عہد کئے ہوئے ہیں۔
آپؒ
کا زیادہ تر خطاب محبت اور تربیتی امور پر مبنی ہوتا، آپؒ جامع مسجد شیر
ربانی وسن پورہ لاہور میں کئی سال تک مسلسل جمعتہ المبارک کو خطبہ دیتے رہے
اور نہ صرف حضرت صاحبزادہ صاحب کی دینی، ملی اور تبلیغی کوششوں سے بہت سے
لوگ مسلمان ہوئے۔ بلکہ آپ کی اک نگاہ عنایت سے ہزاروں لوگو ں کی تقدیریں
بدل گئیں۔ اور ان کی زندگی ایسے انقلاب سے دوچار ہوئی کہ وہ تمام دنیاوی
خرافات کو چھوڑ چھاڑ کر اسلامی تعلیمات کے عین مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ
ہو گئے اور آپؒ کی حقانیت اور للٰہیت پر سر تسلیم خم کرنے لگ گئے۔ حضرت
فخر المشائخ صاحبزادہ صاحبؒ سیاست کو سنت نبویؐ گردانتے ہوئے اس پرخار
میدان میں بھی کود پڑے۔ اور آپؒ نے نظام مصطفٰیؐ کے نفاذ اور مقام مصطفٰیؐ
کے تحفظ کے لئے ’’جمعیت العلماء پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں
بھرپور کردار ادا کیا اور آپ کا اسمِ گرامی ’’جمعیت العلماء پاکستان‘‘ کے
اکابرین میں شمار ہونے لگا۔ آپ نے 1971ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے
پاکستان کے ٹکٹ پر قصور کے حلقہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ 1977ء میں
بھی آپ نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور پاکستان قومی اتحاد کے ٹکٹ پر
الیکشن لڑا۔ اس الیکشن میں جیسا کہ مشہور ہے کہ پورے ملک میں دھاندلی کی
گئی اس کے نتائج سے سب کو آگاہی ہے۔ اس وقت کی حکومت نے سیاسی انتقامی
کارروائیاں تیز کر دیں جس کے تحت آپؒ کئی بار جیل بھی گئے اور آپؒ نے اسے
سنتِ یوسفی علیہ السلام اور سنت مجددؒ گردانتے ہوئے قید و بند کو ایک سعادت
جانا۔
1978ء میں جمعیت علمائے پاکستان کے انتخابات ہوئے تو اس کے
نتیجے میں آپ مرکزی نائب صدر چنے گئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب ہمیشہ ملک و ملت
اور تحفظ نظام مصطفٰیؐ کے عملی نفاذ کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ آپؒ کے قائد
اہلسنت حضرت امام شاہ احمد نورانی علیہ الرحمتہ سابقہ سربراہ جمعیت علماء
پاکستان کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے۔ کچھ عرصہ سے حضرت صاحبزادہ اپنی دینی
اور ملی مصروفیات اور ناسازی صحت کے تحت سیاست سے کچھ پرہیز کرنے لگ گئے
تھے۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ملک کئی اہم مسائل کا
شکار ہو گیا تھا اور کئی شورشیں، فتنے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں سب سے اہم
فتنہ ’’قادیانی فتنہ‘‘ تھا۔ اس اہم مسئلہ کا حل سوائے قادیانیوں کو غیر
مسلم قرار دینے کے کوئی اور نہ تھا۔ اس سلسلے میں دو تحریکیں چلائی گئیں۔
پہلی تحریک ختم نبوت 1954ء میں چلائی گئی اور دوسری 1974ء میں۔ حضرت قبلہ
میاں جمیل احمدؒ نے ان دونوں تحریکوں میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے بڑا افعال
کردار ادا کیا۔ حضرت صاحبزادہؒ نے اس سلسلے میں کئی جلسوں کی صدارت کی، بڑی
موثر اور پرجوش تقاریر بھی فرمائیں اور لوگوں کے دلوں میں ’’تحفظ ناموس
رسالتؐ‘‘ کا احساس پیدا کیا۔ 1974ء میں علماء اہلسنت اور مشائخ اہلسنت کی
مخلصانہ کوششوں اور کاوشوں سے حضرت امام شاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ
سابق سربراہ جمعیت علماء پاکستان کی قیادت میں سرکاری طور پر مرزائیوں کو
غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔
فخرالمشائخؒ کے مریدین کی تعداد گنتی سے
باہر ہے اور نہ صرف اندرون ملک پاکستان بلکہ بیرون ممالک میں بھی آپ کے
عقیدت مند اور مرید پائے جاتے ہیں۔ لیکن آپؒ کے خلفاء صرف تین ہیں۔
حضرت
میاں خلیل احمد صاحب شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ حضرت علامہ مولانا عبدالوہاب
صاحب رحمتہ اللہ علیہ بن مناظر اسلام مولانا محمد عمر اچھروی رحمتہ اللہ
علیہ، جناب صوفی غلام سرور صاحب رحمتہ اللہ علیہ آف لاہور
فخرالمشائخ
حضرت صاحب میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری سجادہ نشین آستانہ عالیہ شیر ربانی
رحمتہ اللہ علیہ و ثانی لاثانی علیہ الرحمتہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک
صاحبزادی اور چار صاحبزادوں سے نوازا۔ صاحبزادگان کے نام یہ ہیں۔
حضرت
میاں خلیل احمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت صاحبزادہ صاحب میاں سعید
احمد شرقپوری، حضرت صاحبزادہ صاحب جلیل احمد شرقپوری، حضرت صاحبزادہ صاحب
میاں غلام نقشبند رحمتہ اللہ علیہ
آپؒ کے دونوں صاحبزادگان آپؒ کے مشن پر پوری طرح سے کاربند ہیں اور اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریں