جمعرات، 24 اکتوبر، 2013

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت

18
ذی الحجہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ، داماد نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے جنہیں 82 سال کی عمر میں مدینہ میں بے دردی سے شہید کردیا گیا تھا 
ان کی شہادت پر ایک خصوصی تحریر دوبارہ پوسٹ کی جارہی ہے 

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت عبداللہ بن سبّا اورمروان کی شرارتوں سے واقع ہوئی گورنر مصر کے مظالم سے تنگ آکر مصریوں کے اصرار پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اورگورنر مصرکی معزولی کا مطالبہ کیا آپ نے فرمایاجس کو تم پسندکرتے ہو میں اسکو گورنر بنادیتا ہوں انہوں نے حضرت محمدبن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا آپ نے محمدبن ابو بکر کو گورنر بنا کر مصرروانہ کردیااور انکے ساتھ مہاجرین وانصارکی بھی ایک کثیر تعداد روانہ ہوئی تاکہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں۔ادھر مروان نے مصرکے پہلے گورنر کو ایک خط لکھاجس میں تحریرکیاکہ یہ خط امیرالمومنین کی طرف سے ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جونہی محمدبن ابوبکر اور انکے ساتھی تمہارے ہاں پہنچیں تو ان سب کوقتل کردینا اورخفیہ طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مہرلگا کر آپ ہی کے غلام کو اونٹ پرسوارکرکے مصرروانہ کردیا راستہ میں یہ لوگ اور یہ غلام باہم مل گئے۔انہوں نے اس غلام سے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو اس نے کہا امیرالمومنین کا ایک پیغام لیکرمصرجارہا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ مصر کا گورنر تو ہمارے ساتھ ہے جو پیغام ہے انہیں کہو اس نے کہایہ نہیں جو مصرمیں ہیں انکی بات ہے اس پرلوگوں کو شک پڑگیا وہ کہنے لگے کہ تیرے پاس کوئی خط نہیں وہ غلام کہنے لگامیرے پاس کوئی خط نہیں ۔چنانچہ انہوں نے اس غلام کی تلاشی لی توخط نکل آیاجب اس نے کھول کرپڑھاتواس میں تحریرتھاکہ یہ خط حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کیطرف سے ہے لوگوں نے محمدبن ابوبکرکو زبردستی حاکم مقرر کردیا ہے لہذا جس وقت یہ مصرمیں پہنچیں تو انہیں فوراََ قتل کردینا۔ یہ خط پڑھ کرسب غصہ میں بھڑک اٹھے اور واپس مدینہ منورہ آگئے اورتمام صحابہ کو جمع کیا اوروہ خط سنایا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وہ خط لیکرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اورکہا کیا یہ خط آپ نے لکھوایا ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لاعلمی اظہار کیا اور لیکن ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا اور بغاوت کردی اور آپ کے مکان کامحاصرہ کرلیا
صحابہ کرام نے عرض کیا یا امیرالمومنین آپ حکم دیں ہم ان سے لڑائی کرکے انہیں بھگادیں ۔آپ نے فرمایا تمہیں قسم ہے پیداکرنیوالے کی کسی مسلمان کاایک قطرہ بھی خون کا نہ بہانامیں اسکاقیامت کے دن کیاجواب دوں گا۔ پھرصحابہ کرام نے کہاکہ آپ کسی اورجگہ چلے جائیں آپ نے فرمایامیں چاہتاہوں کہ سرکارکے قدموں میں میری جان نکل جائے تو کوئی پرواہ نہیں اسکے بعدآپ مسجدمیں تشریف لے گئے اورمنبر پر کھڑے ہو کرخطبہ دیا اورخط کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار فرمایا ۔ ابھی آپ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ ظالموں نے آپ پر پتھر برسانے شروع کردیے یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہو کر زخمی حالت میں منبرسے نیچے گرپڑے ۔لوگ آپکو اسی حالت میں اٹھا کر لے آئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے آپکی حالت دیکھ کرایک بارپھر کہا اے امیرالمومنین آپ ہمیں اجازت دیں ہم انکاخاتمہ کردیں آپ نے انہیں منع فرمادیا۔اب ایک بارپھرسینکڑوں کی تعدادمیں بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھرکا محاصرہ کرلیااورکہنے لگے کہ اب بغیرقتل کے نہ چھوڑیں گے اور ہر چیز کا مکان کے اندرآناجاناحتیٰ کہ پانی تک بندکردیاگھرمیں کھانے پینے کی ہرچیزختم ہوگئی جب پانی بندہوئے سات دن گزرگئے توحضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے کھڑکی سے سرمبارک باہرنکال کرآوازدی کہ ہے کوئی آج عثمان کو پانی کاایک پیالہ پلادے میں وعدہ کرتاہوں کہ قیامت کے دن جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حوض کوثر پر پیالہ مجھے عطافرمائیں گے میں اُسے پیالہ دوںگا۔(مسلمانوں کے لیے کنواں خرید کر وقف کرنے والے آج خود ایک پیالہ پانی کے لیے ترس رہے ہیں )
جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو پتاچلا تو آپ نے تین مشکیں پانی سے بھریں اورجب آپکے مکان کے قریب پہنچے توان باغیوں نے مشکوں میں برچھے مارکرانہیں چھلنی کردیاجس سے ساراپانی بہہ گیا اسکے بعدحضرت ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بھی پانی کی ایک مشک لے کرخچر پر سوار ہو کرآئیں۔مگران ظالموں نے انکی بھی پرواہ نہ کی اورخچرکے منہ پرچھڑیاں ماریں جس سے وہ ایسا بھاگا کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بمشکل گرنے سے بچیں یہ دیکھ کرلوگ گھبرائے اور کہا خدا تمہارا خانہ خراب کرے ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کچھ خیال کرو اس پر اہل مدینہ کو بہت غصہ آیا اورتلواریں لے کرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اب توازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی بے حرمتی ہونے لگی ہے ہمیں لڑنے کی اجازت دو آپ نے پھرمنع فرما دیا حتیٰ کہ پانی بند ہوئے چالیس دن گذرگئے اسکے بعدظالموں نے آپکے مکان کو آگ لگادی گھر والے گھبرا اٹھے بچے رونے لگے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے گھرجل رہاتھا مگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نماز میں ذرا بھر بھی فرق نہ آیا۔ اسکے بعد آپ قرآن مجیدکی تلاوت شروع کردی ۔چند باغی دیوار پھاند کر مکان کے اندر داخل ہوگئے جن میں محمدبن ابی بکر نے آپ کی داڑھی مبارک کو پکڑ کر ہلانا شرو ع کردیا۔آپ نے فرمایا بھتیجے اگرتیرا باپ ابو بکر آج زندہ ہوتا تو تو کبھی ایسا نہ کرتا۔ محمد بن ابوبکر کو اس بات سے بہت شرم آئی اور وہ آپ کو چھوڑ کر آپ کے گھر سے نکل گیا ۔ایک ظالم سواد بن جمران نے آپ کا گلا گھونٹا اورایک نے آپ کے چہرے پرطمانچے مارنے شروع کردیے مگر واہ عثمان تیرے حوصلے پر صدقے تیرے صبرپرقربان اُف تک نہ کی پھراس نے تلوار کا وار کیا جس سے آپکی زوجہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا کی انگلیاں روکتے ہوئے کٹ گئیں اورآپ کا اپناہاتھ بھی کٹ کرزمین پر گر گیا اس پرآپ نے فرمایایہ وہ ہاتھ تھا جو وحی لکھا کرتا تھا آج یہ راہ مولیٰ میں کٹا ہے یہ وہ ہاتھ تھاجس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کی تھی اورجس دن سے اس ہاتھ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناہاتھ کہا یہ کسی گندی جگہ پرنہ گیا۔آپ نے فرمایا!او بے خبرو ذرا اس ہاتھ کو اچھی طرح دفن کرنا اسکے بعد ایک اورظالم نے آپ پر برچھے کے وارکرنا شروع کردیے اورخون کاپہلاقطرہ قرآن مجید کی اس آیت پرگرا "فَسَیَک فِی کَھُمُُ اللہ وَھُوَالسَّمِیعُ العَلِیدم "تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہے اوروہ سننے والا اور جاننے والاہے۔اس طرح آپ تلاوت قرآن مجیداورکلمہ شریفکاوردکرتے ہوئے اٹھارہ ذوالحجہ 35ھ بروزجمعة المبارک کوجام شہادت نوش فرماگئے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں