جمعرات، 31 اکتوبر، 2013

ترکھاناں دا منڈا...افکار مسلم...ازقلم...عبدالرزاق قادری

دنیاکی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بے شمار ایسے بادشاہوں کے تذکرے ملتے ہیں جو مطلق العنان بنے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ تاریخِ اسلام میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ان میں 40 برس تک حکومت کرنے والے بھی ہیں۔ ان کے دربار میں چاپلوسی کرنے والے وزیر، مشیر اور مسخرے انہیں شہنشاہوں کے شہنشاہ! بادشاہوں کے بادشاہ! اور دیوتاؤں کے دیوتا جیسے القابات سے پکارتے تھے۔ وہاں کسی پرندے کو پر مارنے کی مجال نہ ہوتی تھی۔ ان کے حکم سے لوگ سال تک جیلوں میں قید رہتے ۔ وہ دنیا جہاں کو بدل دینے کے دعوے کرتے تھے۔ ان کے نام کے سکے رائج رہے۔ وہ لوگوں کے خدا بننے کی کوشش کرتے۔ عوام الناس کی زندگیوں کے فیصلے ان کی ایک جنبش ابرو میں بدل جاتے۔ آج ان کا نام جاننے والا کوئی نہیں۔ ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں۔ حتیٰ کہ آج کے دور کے حکمران بھی اپنے پیشروؤں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں ان موجودہ حکمرانوں کو جاننے والا بھی کوئی موجود نہ رہے۔ لاہور میں جہانگیر بادشاہ کا مقبرہ ہے اس کی بیگم نورجہاں(زیب النساء) اور نورجہاں کے بھائی آصف کابھی۔ جہانگیر کی وفات کے بعد اُسے نورجہاں نے نہایت تزک و احتشام کے ساتھ چہار باغ میں دفنایا ہو گا۔ اور اپنی قبر کے بارے میں وہ خود ہی لکھ گئی تھی کہ وہاں کوئی چراغ نہ جلے گا۔ مقبرہ جہانگیر لاہور میں جانے کے لیے چند روپے کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے مگر بہت سے مقامی لوگ عقبی جانب سے بغیر ٹکٹ کے داخل ہوتے ہیں۔ لڑکے بالے وہاں کرکٹ کھیلنے آتےہیں۔ دیگر لوگ سیرسپاٹے کی غرض سے وہاں جاتے ہیں۔

لیکن آئیں آپ کو اسی لاہور میں ایک اور مقبرے پر آنے کی دعوت ہے۔ پونے دس صدیاں پہلے ایک بزرگ سید علی بن عثمان ہجویری نے مسعود غزنوی کے عہد میں لاہور شہر کی فصیل کے باہر دریا کنارےڈیرہ لگایا تھا۔ اس بابے نےکبھی کسی کا رب بننے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری کے بقول


"اتنی بڑی بارگاہ میں کھڑا ہوں! جہاں اللہ کے اولیاء، اللہ کے اولیاء فیض لینے آتے رہے! یہاں خواجہ اجمیری فیض لینے آئے! یہاں فریدالدین گنج شکر فیض لینے آئے! بڑے بڑے حضرات یہاں فیض لینے آتے رہے کہ یہ بارگاہِ گنج بخش ہے! "
اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا

گنج بخش فیض عالم ،مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما

حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ جوتے اتار کر داتا کی نگری میں آتے تھے۔ بڑے بڑے بادشاہوں نے اس درگاہ پر حاضری دی۔ اور ان کے مزار کی سیڑھیوں میں دفن ہونا اپنے لیے سعادت سمجھا۔ سوال تو یہ ہے کہ اتنی صدیاں پہلے وفات پانے والے بزرگ سے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کا رشتہ کیا ہے جو وہاں حاضری دیتے آرہے ہیں؟ خواجہ اجمیری سے آج کے نومسلم کا کیا رشتہ ہے؟ غوثِ اعظم سرکار شیخ سید عبدالقادر جیلانی سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا رشتہ کیا ہے؟ مجدد اعظم شیخ احمد فاروقی سرہندی سے کیا رشتہ ہے؟ شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے کیا رشتہ ہے؟ امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان قادری سے کیا رشتہ ہے؟ پیر سید جماعت علی شاہ سرکار رحمۃ اللہ علیہ سے کیا رشہ ہے؟ پیر سید مہر علی شاہ سرکار گولڑوی سے کیا رشتہ ہے؟ جنہوں سے سرکار دوعالم رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت جب خواب میں کی تو جاگ کر کہا

؎ کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں

انہوں نے اس پنجابی نعت میں نبی اکرم شفیع معظم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرمایا ہے۔ انہی عشقِ رسول کی انمٹ لہروں کا رشتہ عوام الناس کو ان تمام بزرگوں سے ہے۔ ان بزرگوں نے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے احکامات کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارا ۔ ان کے ان نیک کاموں کی وجہ سے عشق و رحمت کے فوارے جاری ہوئے۔ انہوں نے انسانیت دوستی کا درس دیا۔ انہوں نے سچے اور کھرے دین اسلام کا ہدایت والا پیغام لوگوں تک اپنی بساط کے مطابق پہنچایا۔ آج ان کے چرچے ہیں۔ ان کے عرس بھی ہوتے ہیں اوران کے مزارات پر قرآن خوانی بھی ہوتی ہے۔ ان کے درباروں سے ملحق مسجدوں میں عبادت الٰہی بھی ہوتی ہے اور وہاں مدارس میں قال اللہ و قال رسول اللہ کی صدائیں بھی گونجتی ہیں۔

کچھ ایسے بدبخت لوگ بھی انسانی تاریخ کا حصہ ہیں جو بجائے خود انسانیت کے لیے باعثِ عار ہیں۔ جن کی مذموم حرکتوں سے حضرت انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسے ظالم لوگوں میں سے ایک خبیث کا نام راج پال تھا۔ اس کا نام ان بدبختوں میں آتا ہے جنہوں نے شمع عشق رسول کے پروانوں کو دعوتِ مبارزت دی اور ان کے عشق کا امتحان لینا چاہا۔ کفار ہمیشہ سے یہ نکتہ سمجھے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں کا سرمایہ "عشق رسول " ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر محمد اقبال نے فرمایا۔
؎ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اسی سرمایہء ملت کو ایک بار پھر چیلنج کیا گیا۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ایک خاص بندے کو اس ملعون کا کام تمام کرنے کے لیے چن لیا۔1929 سے پہلے علم دین کے نام کو کون جانتا تھا؟ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال جیسے فلسفی اور محقق کو کس ناخواندہ ترکھانوں کے بیٹے پر رشک آنا تھا؟ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کو نوبل پرائز اس لیے نہ ملا کہ وہ صرف امت مسلمہ کے شاعر تھے۔ حالانکہ اقبال جیسی عظیم ہستی ان دنیا داروں کے نوبل پرائز کی محتاج نہ تھی۔ انہیں نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی شمع میں جل جانے والے غازی علم الدین شہید پر رشک آیا۔ ان کے لیے تہنیت کا پیغام عاشق رسول ہونے کا لقب تھا۔ ان کی آنکھیں یورپ کی چکا چوند کی بجائے خاکِ مدینہ و نجف کو اپنا سُرمہ بنانا چاہتی تھی۔ امام اہل سنت مولانا احمد رضاخان قادری نے کہا تھا۔
؎ کیوں تاجدارو! خواب میں دیکھی کبھی یہ شےء
جو آج جھولیوں میں غلامانِ در کی ہے

آج دعوت نظارہ ہے کہ دن کے وقت دنیا کے بادشاہوں کی قبروں پہ جا کر دیکھ لو! ویرانی ان کا مقدر ہے۔ اور آج رات کے وقت غازی علم دین شہید کے مزار پر بھی جا کر دیکھ لو! اکیس سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرنے والے ان پڑھ نوجوان کی قبر پہ مفسر قرآن، محدث، علامہ، مفتی، ڈاکٹر، وکلاء اور ججوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ غازی علم دین شہید کے مقدمے میں انگریز ججوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے دلائل کو پسِ پشت ڈال کر اپنا حکم نامہ جاری کردیا تھا۔ اور دوسری وضاحت یہ کہ قائد اعظم پر یہ الزام کہ انہوں نے غازی کے کیس کے لیے کثیر رقم مسلمانانِ پاک و ہند کی جیبوں سے نکلوا لی تھی یہ بھی جھوٹا ہے۔ یہ بہتان بد بختوں کے خبث باطن کا آئینہ دار ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے حضرت قائد اعظم نے حضرت علامہ محمد اقبال کو اپنی چیک بک دے کر کہا تھا کہ غازی کے لیے جتنے پیسے چاہیئں وہ یہاں خود لکھ لو!!!!!
آج غازی علم دین کے چاہنے والوں کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں غازی ملک ممتاز حسین قادری کو بھی یاد رکھنا چاہئیے اور ان کی رہائی کے لیے بھر پور کوشش کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے

جلسہ دستار فضیلت و عظمت مصطفےٰ ﷺ


بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ


دعوت عام


غازی علم دین شہید کی قربانی کو ہمیشہ ہاد رکھا جائے گا۔فیاض الحسن


غازی علم دین سے غازی ممتاز قادری تک

بدھ، 30 اکتوبر، 2013

فرقہ وارانہ قتل و غارت کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے - صاحبزادہ حامد رضا


عرس بدر المشائخ مبارک


عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ


عشق رسول ﷺ


عشق رسول ﷺ


شیخ الحدیث سیمینار


مرزا ارشد بیگ


عرس بُزرگان ڈھوڈا شریف


ابو الخیر ملی یکجحتی کونسل کے صدر منتخب


ابو الخیر ملی یکجحتی کونسل کے صدر منتخب


ابو الخیر ملی یکجحتی کونسل کے صدر منتخب


حامد رضا آج وطن واپس بہینچیں گئے


پیر، 28 اکتوبر، 2013

سُنی تحریک کونسل پاکستان


پاکستان سُنی تحریک کا منشور


تبلیغی اور اصلاحی پروگرام


کلک رضا کانفرنس


عشق رسول ﷺ سیمینار


لوگوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھینا جا رہا ھے -


ڈاونلوڈ کر کے پڑھ لیں

 



جے یو پی


سید فاروق اعظم رضی اللہ عنہ


عظیم اہلیبیت کانفرنس


ختم نبوت ﷺ تحفظ ناموس رسالت ﷺ کانفرنس


مسلم حکمران اور عوام میں ایک دوری موجود ہے - ڈاکٹر اشرف آصف جالالی


اتوار، 27 اکتوبر، 2013

غازی علم دین شیہد رحمتہ اللہ علیہ


ختم نبوت ﷺ کانفرنس - جمیعت علماء پاکستان کے زیر اھتمام


خوش آمدید


کشکول توڑے بغیر خود مختاری ممکن نہیں- سُنی تحریک


سنی تحریک کی فریاد


ہفتہ، 26 اکتوبر، 2013

منقبت بحضور داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ


مزارات پر حاضری کا طرہقہ و آداب


سُنی اتحاد کونسل


عرس مبارک


نواز شریف کی واپسی


فکر اولیاء کانفرنس


جمعرات، 24 اکتوبر، 2013

حضور تاج الشریعہ دامت برکاتہم کا وضاحتی بیان


سُنی اتحاد کونسل پاکستان


خواجہ مظفر حُسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کی رسومات تدفین


گُمبد خضریٰ کانفرس


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت

18
ذی الحجہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ، داماد نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے جنہیں 82 سال کی عمر میں مدینہ میں بے دردی سے شہید کردیا گیا تھا 
ان کی شہادت پر ایک خصوصی تحریر دوبارہ پوسٹ کی جارہی ہے 

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت عبداللہ بن سبّا اورمروان کی شرارتوں سے واقع ہوئی گورنر مصر کے مظالم سے تنگ آکر مصریوں کے اصرار پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اورگورنر مصرکی معزولی کا مطالبہ کیا آپ نے فرمایاجس کو تم پسندکرتے ہو میں اسکو گورنر بنادیتا ہوں انہوں نے حضرت محمدبن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا آپ نے محمدبن ابو بکر کو گورنر بنا کر مصرروانہ کردیااور انکے ساتھ مہاجرین وانصارکی بھی ایک کثیر تعداد روانہ ہوئی تاکہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں۔ادھر مروان نے مصرکے پہلے گورنر کو ایک خط لکھاجس میں تحریرکیاکہ یہ خط امیرالمومنین کی طرف سے ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جونہی محمدبن ابوبکر اور انکے ساتھی تمہارے ہاں پہنچیں تو ان سب کوقتل کردینا اورخفیہ طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مہرلگا کر آپ ہی کے غلام کو اونٹ پرسوارکرکے مصرروانہ کردیا راستہ میں یہ لوگ اور یہ غلام باہم مل گئے۔انہوں نے اس غلام سے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو اس نے کہا امیرالمومنین کا ایک پیغام لیکرمصرجارہا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ مصر کا گورنر تو ہمارے ساتھ ہے جو پیغام ہے انہیں کہو اس نے کہایہ نہیں جو مصرمیں ہیں انکی بات ہے اس پرلوگوں کو شک پڑگیا وہ کہنے لگے کہ تیرے پاس کوئی خط نہیں وہ غلام کہنے لگامیرے پاس کوئی خط نہیں ۔چنانچہ انہوں نے اس غلام کی تلاشی لی توخط نکل آیاجب اس نے کھول کرپڑھاتواس میں تحریرتھاکہ یہ خط حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کیطرف سے ہے لوگوں نے محمدبن ابوبکرکو زبردستی حاکم مقرر کردیا ہے لہذا جس وقت یہ مصرمیں پہنچیں تو انہیں فوراََ قتل کردینا۔ یہ خط پڑھ کرسب غصہ میں بھڑک اٹھے اور واپس مدینہ منورہ آگئے اورتمام صحابہ کو جمع کیا اوروہ خط سنایا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وہ خط لیکرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اورکہا کیا یہ خط آپ نے لکھوایا ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لاعلمی اظہار کیا اور لیکن ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا اور بغاوت کردی اور آپ کے مکان کامحاصرہ کرلیا
صحابہ کرام نے عرض کیا یا امیرالمومنین آپ حکم دیں ہم ان سے لڑائی کرکے انہیں بھگادیں ۔آپ نے فرمایا تمہیں قسم ہے پیداکرنیوالے کی کسی مسلمان کاایک قطرہ بھی خون کا نہ بہانامیں اسکاقیامت کے دن کیاجواب دوں گا۔ پھرصحابہ کرام نے کہاکہ آپ کسی اورجگہ چلے جائیں آپ نے فرمایامیں چاہتاہوں کہ سرکارکے قدموں میں میری جان نکل جائے تو کوئی پرواہ نہیں اسکے بعدآپ مسجدمیں تشریف لے گئے اورمنبر پر کھڑے ہو کرخطبہ دیا اورخط کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار فرمایا ۔ ابھی آپ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ ظالموں نے آپ پر پتھر برسانے شروع کردیے یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہو کر زخمی حالت میں منبرسے نیچے گرپڑے ۔لوگ آپکو اسی حالت میں اٹھا کر لے آئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے آپکی حالت دیکھ کرایک بارپھر کہا اے امیرالمومنین آپ ہمیں اجازت دیں ہم انکاخاتمہ کردیں آپ نے انہیں منع فرمادیا۔اب ایک بارپھرسینکڑوں کی تعدادمیں بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھرکا محاصرہ کرلیااورکہنے لگے کہ اب بغیرقتل کے نہ چھوڑیں گے اور ہر چیز کا مکان کے اندرآناجاناحتیٰ کہ پانی تک بندکردیاگھرمیں کھانے پینے کی ہرچیزختم ہوگئی جب پانی بندہوئے سات دن گزرگئے توحضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے کھڑکی سے سرمبارک باہرنکال کرآوازدی کہ ہے کوئی آج عثمان کو پانی کاایک پیالہ پلادے میں وعدہ کرتاہوں کہ قیامت کے دن جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حوض کوثر پر پیالہ مجھے عطافرمائیں گے میں اُسے پیالہ دوںگا۔(مسلمانوں کے لیے کنواں خرید کر وقف کرنے والے آج خود ایک پیالہ پانی کے لیے ترس رہے ہیں )
جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو پتاچلا تو آپ نے تین مشکیں پانی سے بھریں اورجب آپکے مکان کے قریب پہنچے توان باغیوں نے مشکوں میں برچھے مارکرانہیں چھلنی کردیاجس سے ساراپانی بہہ گیا اسکے بعدحضرت ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بھی پانی کی ایک مشک لے کرخچر پر سوار ہو کرآئیں۔مگران ظالموں نے انکی بھی پرواہ نہ کی اورخچرکے منہ پرچھڑیاں ماریں جس سے وہ ایسا بھاگا کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بمشکل گرنے سے بچیں یہ دیکھ کرلوگ گھبرائے اور کہا خدا تمہارا خانہ خراب کرے ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کچھ خیال کرو اس پر اہل مدینہ کو بہت غصہ آیا اورتلواریں لے کرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اب توازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی بے حرمتی ہونے لگی ہے ہمیں لڑنے کی اجازت دو آپ نے پھرمنع فرما دیا حتیٰ کہ پانی بند ہوئے چالیس دن گذرگئے اسکے بعدظالموں نے آپکے مکان کو آگ لگادی گھر والے گھبرا اٹھے بچے رونے لگے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے گھرجل رہاتھا مگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نماز میں ذرا بھر بھی فرق نہ آیا۔ اسکے بعد آپ قرآن مجیدکی تلاوت شروع کردی ۔چند باغی دیوار پھاند کر مکان کے اندر داخل ہوگئے جن میں محمدبن ابی بکر نے آپ کی داڑھی مبارک کو پکڑ کر ہلانا شرو ع کردیا۔آپ نے فرمایا بھتیجے اگرتیرا باپ ابو بکر آج زندہ ہوتا تو تو کبھی ایسا نہ کرتا۔ محمد بن ابوبکر کو اس بات سے بہت شرم آئی اور وہ آپ کو چھوڑ کر آپ کے گھر سے نکل گیا ۔ایک ظالم سواد بن جمران نے آپ کا گلا گھونٹا اورایک نے آپ کے چہرے پرطمانچے مارنے شروع کردیے مگر واہ عثمان تیرے حوصلے پر صدقے تیرے صبرپرقربان اُف تک نہ کی پھراس نے تلوار کا وار کیا جس سے آپکی زوجہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا کی انگلیاں روکتے ہوئے کٹ گئیں اورآپ کا اپناہاتھ بھی کٹ کرزمین پر گر گیا اس پرآپ نے فرمایایہ وہ ہاتھ تھا جو وحی لکھا کرتا تھا آج یہ راہ مولیٰ میں کٹا ہے یہ وہ ہاتھ تھاجس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کی تھی اورجس دن سے اس ہاتھ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناہاتھ کہا یہ کسی گندی جگہ پرنہ گیا۔آپ نے فرمایا!او بے خبرو ذرا اس ہاتھ کو اچھی طرح دفن کرنا اسکے بعد ایک اورظالم نے آپ پر برچھے کے وارکرنا شروع کردیے اورخون کاپہلاقطرہ قرآن مجید کی اس آیت پرگرا "فَسَیَک فِی کَھُمُُ اللہ وَھُوَالسَّمِیعُ العَلِیدم "تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہے اوروہ سننے والا اور جاننے والاہے۔اس طرح آپ تلاوت قرآن مجیداورکلمہ شریفکاوردکرتے ہوئے اٹھارہ ذوالحجہ 35ھ بروزجمعة المبارک کوجام شہادت نوش فرماگئے