چوہدری چھوٹی چھوٹی بات پر کمیوں (غریبوں) کو ڈانٹتا۔ جب چاہتا گالیاں دیتا۔ کمیوں کی اور ان کے جذبات کی توہین کر کے رکھ دیتا۔ وقتاً فوقتاً ایسے واقعات بھی ہوتے جب کمیوں کی خوبصورت لڑکی چوہدری کی ہوس کا شکار بھی ہو جاتی۔ کئی دفعہ کوئی کمی یا اس کا جوان جوشیلا بیٹا احتجاج بھی کرتا۔ کبھی کبھار معاملات یہاں تک پہنچ جاتے کہ چوہدری قتل بھی کر دیا جاتا۔ کئی دفعہ اس جوان کے جوش کو محلاتی سازشیں ”ہائی جیک“ کر لیتی تو کئی دفعہ چوہدری کے دیگر حریف جوان کے جوش سے فائدہ اٹھا جاتے۔ چوہدری کے قتل ہونے کی صورت میں چوہدری کی آل اولاد اس قاتل کو سزا کے طور پر قتل کرتے یا بذریعہ قانون کرواتے، کیونکہ چوہدری امیر ہوتے، قانون و قاضی چوہدری کے ہی تیار کردہ جو ہوتے۔ چوہدری لوگ پراپیگنڈہ کرتے۔ یوں ظالم مظلوم بن جاتا اور دوسری طرف کمی، بیٹی کی عزت لٹوا کر، جوان بیٹا گنوا کر در بدرکی ٹھوکریں کھا رہا ہوتا۔ وقت تیزی سے گذرتا اور پھر وہی سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا، جس میں چوہدری چوہدری ہوتا۔
کمیوں کو سب نظر بھی آتا، ساری کہانی سے واقف بھی ہوتے مگر آخر ایسی کونسی وجہ تھی کہ سب خاموشی سے اپنا تماشا بنتے دیکھتے رہتے؟ اس خاموشی کی سب سے پہلی وجہ کمیوں کا متحد نہ ہونا۔ بس یہ سوچ کر چپ کر جانا کہ چلو ہم تو محفوظ ہیں۔ دوسری اور اہم وجہ ان کی غریبی تھی۔ ظاہر ہے جب چوہدری کے محتاج تھے اور چوہدری کی ہی زمین پر کام کرنا۔ چوہدری سے لے کر کھانا۔ چوہدری کے تلوے چاٹ کر پیٹ بھرنا ہوتا تو پھر کیسے چوہدری کے خلاف بغاوت کر سکتے تھے۔ اگر کوئی بغاوت کرتا بھی تو بڑے بوڑھے اسے سمجھاتے کہ چپ کر جا نہیں تو روٹی کے لالے پڑ جائیں گے۔ بڑے بوڑھے اپنی جگہ درست بھی ہوتے کیونکہ انہوں نے بچپن سے یہی سیکھا ہوتا کہ بس چوہدری کی خدمت کرو، اس سے لے کر کھاؤ اور ہر بات پر چپ کر جاؤ۔ خیر پھر بھی اگر کوئی بغاوت کرتا، وہ تنہا ہونے کے ساتھ ساتھ غریب بھی ہوتا اور بغاوت کے جرم میں لٹکا دیا جاتا۔
یہ بغاوت ذاتی انتقام کی خاطر ہوتی۔ کوئی معاشرے کی بہتری کے لئے
بغاوت نہیں کرتا تھا۔ ویسے بھی زیادہ تر، جس کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی، اس کو سیاست اور معاشرت وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا کوئی ”ایمان“ ہوتا ہے۔ اگر کبھی سیاست، معاشرت، دین و مذہب وغیرہ کے لئے نکلتا بھی ہے تو پھر بھی درحقیقت وہ روٹی کے لئے ہی نکلتا ہے۔ اس کے لئے ہمیشہ ”دو اور دو چار روٹیاں“ ہی ہوتیں ہیں۔
بغاوت نہیں کرتا تھا۔ ویسے بھی زیادہ تر، جس کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی، اس کو سیاست اور معاشرت وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا کوئی ”ایمان“ ہوتا ہے۔ اگر کبھی سیاست، معاشرت، دین و مذہب وغیرہ کے لئے نکلتا بھی ہے تو پھر بھی درحقیقت وہ روٹی کے لئے ہی نکلتا ہے۔ اس کے لئے ہمیشہ ”دو اور دو چار روٹیاں“ ہی ہوتیں ہیں۔
ابھی بھی ایسے حالات دنیا میں کئی جگہوں پر ہیں، مگر ہمارے علاقے میں ایسا نہیں۔ یہاں تو اگر کسی چوہدری نے کسی ”کمی“ کو کوئی کام کہنا ہو تو بھائی کہہ کر بلانا پڑتا ہے، بلکہ ترلے منت سے کام کہا جاتا ہے یا پھر دوستی کی بنیاد پر۔ آخر اتنی بڑی تبدیلی کیونکر آئی۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ کمیوں کی نئی نسلوں کو آہستہ آہستہ ہوش آنا شروع ہوا کہ عام نوعیت کی بغاوت کر کے اپنے اور اپنے گھر والوں کو زندہ درگور کرنے کی بجائے اصل بغاوت کرو جس کے دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یعنی اس غریبی اور چوہدری کی محتاجی سے آزادی کا کوئی حل سوچو۔ چوہدری کے محتاج ہونے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی راہیں تلاش کرو۔ نہ رہے گی غریبی اور پھر نہ رہیں گے چوہدری کے ظلم۔ پھر اتنی طاقت ہو گی کہ کمی بھی چوہدری کی سوچ اور فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں گے۔
وقت گذرتا گیا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ کمیوں کی نئی نسل چوہدری کی محتاج ہونے کی بجائے اپنے کام کرتی ہے۔ اپنا کماتے اور اپنا کھاتے ہیں۔ وہ کسی چوہدری کے تلوے نہیں چاٹتے۔ اس لئے اب چوہدری بھی احتیاط کرتا ہے کہ اگر کچھ الٹا کہا تو کمی چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے۔
یہ باتیں سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر غور کریں تو آج کے ترقی یافتہ ممالک (امریکہ و یورپ وغیرہ) اس دنیا کے چوہدری بنے بیٹھے ہیں۔ عالمی قوانین اور یو این او جیسا قاضی اسی چوہدری کا بنایا ہوا ہے۔ غریب ممالک کا شمار کمیوں میں ہوتا ہے اور انہیں غریب ممالک کی حکومتیں کمیوں کے وہ بڑے بوڑھے ہیں جو جب کوئی بغاوت کرنے لگتا ہے تو اسے سمجھاکر چپ کروا دیتی ہیں۔ آج کے چوہدری ممالک جب چاہتے ہیں، کمی ممالک کو ڈانٹتے اور گالیاں نکالتے ہیں۔ کبھی کبھار تو کمی ممالک کی عزت بھی لوٹ لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں کمیوں کے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کر دیتے ہیں۔ جوابی کاروائی میں چند کمی لوگ بغاوت (احتجاج یا قتل) کرتے ہیں۔ بدلے میں چوہدری ممالک کسی نہ کسی طرح انہیں قتل (احتجاج کو خاموش) کروا دیتے ہیں۔ وقت گذرتا ہے اور پھر وہی پہلے جیسا ہو جاتا ہے، جس میں چوہدری کی من مانیاں اور کمی کی غلامی۔
آپ کو یقیناً غریب ممالک اور خاص طور پر مسلمانوں کو ”کمی“ کہنے پر غصہ آیا ہوگا۔ مجھے بھی آتا ہے۔ جب سوچتا ہوں کہ ہر ”ایرا غیرا نتھو خیرا“ ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کر دیتا ہے تو راتوں کو نیند نہیں آتی۔ حالیہ گستاخانہ فلم نے سب حدیں عبور کر دیں۔ میں خود سے اور آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس فلم کے بعد، اب اور کیا باقی ہے؟ رات کے اس پہر میرا دل کر رہا ہے کہ اونچی جگہ چڑھ کر چیخوں کہ اے مسلمانو! اتنا سب ہونے کے باوجود تمہیں کیسے نیند آ گئی؟ عظمت رسولﷺ کے نعرے لگانے والو! کیا یہ سونے کا وقت ہے؟ تم نے یہ سب کیسے برداشت کر لیا؟ آپ میری سوچ اور جذبات کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ میں وہ بد نصیب ہوں جس کو یہ سب دیکھنے سے پہلے موت کیوں نہ آئی۔ میں تو کیا ہم سب وہ بدنصیب ہیں جن کے ہوتے ہوئے، ہر حدیں عبور کرتی ہوئی گستاخانہ فلم بن گئی۔ جنہوں نے دیکھی ہے ان کو تو اندازہ ہو گا مگر جنہوں نے نہیں دیکھی ان کو بتاتا چلوں کہ فلم اس طرح کی ہے کہ کم از کم وہ میرے لئے ناقابل بیاں ہے۔ سارے حالات برداشت سے باہر ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ کس چیز کی سزا مل رہی ہے؟ آخر ہم ”کمی“ کیوں بنے بیٹھے ہیں؟ اب یہ سب دیکھ اور سن چکے ہیں، حالات واضح و حقیقی تصویر کشی کر رہے ہیں کہ ہماری حالت ان کمیوں سے بھی گئی گزری ہے۔ اس سب کے باوجود ہم یہ غلامی کی زنجیر توڑنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے؟ حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ
افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
فطرت بے شمار اشارے کر رہی ہے کہ یہ سب اسی لئے ہو رہا ہے کہ تم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو، تم کمزور ہو، تم غریب ہو، تم کمی کمین ہو۔ یہ سب ہمیں جرمِ ضعیفی کی سزا مل رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ہمارے لئے مرگ مفاجات ہو، ہمیں سنبھل جانا چاہئے اور اس کا کوئی مستقل حل کرنا چاہئے۔
اس کا حل:- حقیقت کو پہچانو۔ سیدھی سی بات ہے کہ ان میں نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی کی جرأت صرف اسی لئے ہوتی ہے کہ انہیں پتہ ہے مسلمان کمزور لوگ ہیں۔ زیادہ سے زیادہ احتجاج کریں گے اور اس احتجاج میں بھی اپنا ملک ہی جلائیں گے، وقت گذرے گا اور پھر چپ کر جائیں گے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عارضی احتجاج کرتے ہیں بلکہ اس میں اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ تمام اسلامی احکامات کی حدیں بھی عبور کر جاتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ سفیر کو امان حاصل ہے مگر ہم جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفیر قتل کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے ہی ملک اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یک دم اٹھتے ہیں اور پھر جاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ چند دن جوش دکھانے کے بعد اپنی اسی پرانی روش پر چل دیتے ہیں۔ جس میں ہم اپنے ہی بھائیوں کی ٹانگیں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے ہی ملکوں کو کمزور کرتے ہیں۔ اسلام جن کاموں سے منع کرتا ہے انہیں کو اپناتے ہیں اور تو اور اسلام کے نام پر ایسے ایسے کام کرتے ہیں کہ جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
غیرت کا تقاضا یہ نہیں کہ بس عارضی احتجاج کرو اور پھر غفلت کی نیند سو جاؤ بلکہ غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ ابھی احتجاج کرو اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو طاقت ور کرو۔ حضرت محمدﷺ ہمارے لئے مشعلے راہ ہیں۔ اگر ہم ان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو میرا خیال ہے کہ اس سے بھی یہی سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب تم جتنا کر سکتے ہو اتنا کرو اور ساتھ ساتھ خود کو طاقتور کرو اور سب سے زیادہ اپنی معیشت کو طاقتور بناؤ کیونکہ اسی معیشت سے عوام کی سب طاقتیں جنم لیتی ہیں۔ جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے تو دماغ بھی تبھی ٹھیک کام کرتا ہے۔
آج ہم کمزور ہیں۔ ہمارے احتجاجوں سے گستاخوں کو فرق نہیں پڑتا۔ اگر پڑا بھی تو عارضی ہو گا اور پھر کچھ عرصہ بعد یہی سب دوبارہ ہو گا۔ اس طرح یوٹیوب اور دیگر ویب سائیٹیں بند کرنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ یہ پہلے بھی بند ہوئی تھیں مگر اب پھر انہوں نے دوبارہ گستاخی کی اور پہلے سے زیادہ کی بلکہ تمام حدیں ہی عبور کر گئے۔ اس لئے یہ بند کرو یا نہ کرو مگر اس کا کوئی مستقل حل سوچو۔ میری نظر میں اس کا حل یہ ہے کہ اپنے آپ کو طاقتور بناؤ۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ بھلا ڈرون کے مقابلے میں ہم ایف سولہ کیسے اڑا سکتے ہیں کیونکہ ایف سولہ بھی تو اسی امریکہ کی دین ہے۔ سلالہ پر ہمارے فوجی مارنے والوں کی سپلائی ہم کیسے بند کر سکتے ہیں کیونکہ ہماری اسی فوج اور عوام کے لئے بجٹ بھی تو امریکہ کے قرضوں سے ملتا ہے
۔ ہم امریکی قرضوں سے کیسے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں کیونکہ ہم اسی چوہدری کے کمی کمین ہیں تو پھر بھلا اس کے ہاتھ سے اپنی عزتیں نہیں لٹوائیں گے تو اور کیا کریں گے۔ وہ جس ملک پر جب چاہتے ہیں یو این او کی اجازت حاصل کرتے ہوئے حملہ کر دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کو کروڑوں مسلمانوں کے حقوق اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ وہ طاقتور ہیں۔
۔ ہم امریکی قرضوں سے کیسے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں کیونکہ ہم اسی چوہدری کے کمی کمین ہیں تو پھر بھلا اس کے ہاتھ سے اپنی عزتیں نہیں لٹوائیں گے تو اور کیا کریں گے۔ وہ جس ملک پر جب چاہتے ہیں یو این او کی اجازت حاصل کرتے ہوئے حملہ کر دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کو کروڑوں مسلمانوں کے حقوق اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ وہ طاقتور ہیں۔
اے عظمت رسولﷺ کے پاسبانو! اے غیور مسلمانو! اُٹھو، خواب غفلت بہت ہو گیا، جاگو! حکمت عملی تیار کرو اور پھر اس پر مستقل طور پر عمل کرتے ہوئے اپنا کماؤ اور اپنا کھاؤ۔ ہر وہ ہاتھ کاٹ دو جو ان گستاخوں کے آگے پھیلتا ہے۔ ہر وہ رستہ بند کر دو جو ہمیں ان سے قرضے لینے پر مجبور کرتا ہے۔ نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے مقابلے میں خود کو تیار کرو۔ اپنا معاشرہ، معیشت، جنگی سامان، حسن سلوک وغیرہ کو جنگی بنیادوں پر بہتر کرنے لگ جاؤ۔ اپنے اندر مستقل مزاجی پیدا کرو۔ آج کے اس عارضی پُرامن احتجاج کے ساتھ ساتھ قسم یہ کھاؤ کہ ہم نے ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ترقی کی ایک نئی منزل تہہ کرنی ہے، ہم نے ہر صبح بہتری کی ایک نئی کرن روشن کرنی ہے، ہم نے ہر پل مسلمانوں اور اپنے ملک کے لئے کچھ نہ کچھ اچھا ضرور کرنا ہے۔ ہم نے جھوٹ، دھوکہ، فریب اور کم ناپ تول وغیرہ کی بجائے سچائی اور حق کا علمبردار بننا ہے۔ اپنی معیشت کو طاقتور کرو اور گستاخوں کی مصنوعات سے پرہیز کرو تاکہ ان کی معیشت تمہارے مقابلے میں کمزور ہو۔ جب ہمارے پاس طاقت ہو گی تو یہ گستاخ مردود چوہدری نہیں ہوں گے اور پھر ان میں گستاخی کی جرأت بھی پیدا نہیں ہو گی۔ اگر پھر بھی انہوں نے ایسی ویسی کوئی حرکت کی تو ہم ان کو ایسا منہ توڑ جواب دیں گے کہ ان کی نسلوں میں سے بھی کوئی ایسی حرکت کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ پھر ہم اس جنگل (دنیا) کے شیر ہوں گے اور نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے، مگر ایسا تب ہو گا جب ہم طاقتور ہوں، جب خود کمائیں گے، جب ہماری معیشت طاقتور ہو گی۔
میں تمہیں چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوں کہ اے عظمتِ رسولﷺ کے پاسبانو! بھلا تمہیں کیسے نیند آ سکتی ہے جبکہ یہ وقت دن رات ترقی کرنے، ایجادات کرنے، اپنی معیشت مضبوط کرنے اور دنیا پر چھا جانے کا ہے۔
اسی موضوع پر 2010ء میں بھی ایک تحریر ”نعرے لگانا آسان مگر محنت کرنا بہت مشکل“ لکھی تھی۔ اگر وقت ہو تو پڑھیے گا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں