لاہور (خصوصی نامہ نگار) اہلسنت کی مذہبی و سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آئین پاکستان کو تسلیم کرنے والے افراد اور گروہوں سے مذاکرات کئے جائیں، آئین کے منکر اور باغی افراد سے مذاکرات قومی مفاد کے خلاف ہیں، مذاکراتی عمل میں حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے، دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مستقل حکمت عملی ترتیب دی جائے، حکومت ، فوج اور ایجنسیوں کے باہمی رابطہ کو م¶ثر بنایا جائے، مذاکرات حکومتی شرائط پر کئے جائیں، سکیورٹی سے متعلق حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے، بڑے شہروں میں دہشت گردی کے مراکز کو تلاش کیا جائے اور ان کے خاتمہ کیلئے اقدامات کئے جائیں، حکومت اور ایجنسیوں میں دہشت گردوں کے حامیوں کو بے نقاب کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ مطالبات جامعہ نعیمیہ میں نعیمین ایسوسی ایشن پاکستان کے زیراہتمام ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کی یاد میں ”قومی امن مذاکرہ“ کے اعلامیہ میں کئے گئے۔ سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی، سربراہ سنی اتحاد کونسل حامد رضا، انجینئر ثروت اعجاز قادری، پیر محمد افضل قادری، قاری زوار بہادر، پیرسید محفوظ مشہدی، مفتی اقبال چشتی، پیر خواجہ غلام قطب الدین، محمد ضیاءالحق نقشبندی سمیت سو سے زائد علماءومشائخ نے شرکت کی۔ مذاکرے کی صدار ت علامہ راغب حسین نعیمی نے کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر طے پایا کہ ریاست پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی آئین کے تحفظ اور نفاذ کو یقینی بنائے حکومت اپنی ترجیحات پر کسی قسم کی سودے بازی نہ کرے۔ دہشت گردی اور ہر طرح کی بدامنی کے خاتمہ کیلئے ملک میں فوراً نظام مصطفےٰ کو نافذ کیا جائے۔ صرف سیاسی جماعتوں کی اے پی سی کافی نہیں ہے۔ ملک کی اکثر جیلیں جرائم پیشہ افراد کیلئے جنت بن چکی ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک کو تباہی سے بچانے کیلئے ڈرون حملے، فرقہ وارانہ منافرت، تعلیمی پسماندگی اور غربت کا خاتمہ ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد فکر اور نظریہ سازی و افراد سازی ہے۔ تمام تعلیمی اداروں میں ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ دریں اثناءامن مذاکرہ کے وقت ایک مشکوک لڑکے کو جامعہ نعیمیہ کی انتظامیہ نے پکڑ کر پولیس کے حوالہ کر دیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں